King Abdul Aziz Mission

ریاض میں داخلہ

قائدانقلاب سعودی عرب




ہم پڑھتے ہیں کہ چین کے ا نقلاب کے لئے اس ا نقلاب کے با نیوں نے لاکھوں کی تعداد میں افراد کے ساتھ اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور کئی سالوں میں کئی لاکھ عوام کی قربا نی او ر طویل لا نگ مارچ کے بعد اپنے مقصد کو حاصل کیا اسی طرح ا نقلابِ روس کے بارے میں بھی یہ ہی کہا جاتا ہے کہ لینن اور اسٹالین نے لاکھوں عوام کے ساتھ اپ ی جدوجہد کاآغاز کیا تھا اور معاضی میں جائیں تو ہمارے سامنے چنگیز خان اور تیمور کی مثالیں ہیں ا نہوں نے د نیا پر قبضے کے لئے لاکھوں کی تعداد پرمشتمل افواج کے ساتھ اپنے دشمنوں کے خلاف جنگوں کا آغاز کیا مگر سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز ابن عبدالرحمان ابن آل سعود کی مثال ان تمام سے جدا اور اچھوتی ہے کہ ا نہوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز محض ساٹھ افراد سے کیا تھا اور اُس اہم ترین مہم کے اہم ترین مرحلے پر اپنے تمام ساتھیوں میں سے صرف دس افراد کو اپنے ساتھ شامل کرکے بقیہ کو انتظار کر نے کے لئے کہا کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں وہ واپس جاکر ان کی موت کی اطلاع دیدیں ایسی مثال تاریخ میں ہمیں کہیں بھی ہیں ملے گی ۔شاہ عبدالعزیز نے اپنی ا نقلابی جدوجہد کا آغاز جس دور میں کیا اُس وقت ترکی کی خلافت قائم تھی اور جزیرۃالعرب اس وقت تک ترکی کے زیر سایہ تصور کیا جاتا تھا مگر اس وقت ترکی کو یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا جبکہ برطا نیہ د نیا کی ایسی مملکت تھی جس کی حدود میں کبھی بھی سورج غروب ہیں ہوتا تھا اس وقت نوجوان عبدالعزیز نے سعودی عرب کی داغ بیل ڈال ے کے لئے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر اچا ک ریاض پر قبضہ کرلیا مگر ا نکا سب سے بڑادشمن خا ندان رشید کاسربراہ اب ا نسے ریاض کی حکومت چھیننے کے لئے تیاری کرکے اور ریاض پر قبضہ کر ے کے لئے آگے بڑھا جس کا مقابلہ کر نے کے لئے نوجوان شاہ عبدالعزیز ے تیاریاں کر رکھیں تھیں اب آگے پڑھیے شاہ عبدالعزیز نے اب اپنی روائتی حکمت عملی کے تحت ابن متعب کا مقابلہ شروع کردیا جس کے تیجے میں الدائم کے مقام پر ابن متعب کو بھرپور شکست حاصل ہوئی جس کے بعد اس نے ہر محاز پر شاہ عبدالعزیز کا مقابلہ کر نے کی ٹھا نی اس مقصد کی خاطر ابن متعب نے ابن سعود کے امداد کے راستوں یعنی کویت او ر سعودی عرب کی سرحدوں پر اپنی افواج کو جمع کر لیا

سعودی عرب کے دارلخلا فہ ریاض کا ایک قدیم منظر


میرے اچھے اوروفادارساتھیوں میں آج رات (ریاض) شہر میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرناچاہتا ہوں جو میرا ساتھ دینا چاہتے ہیں وہ میرے ساتھ آئیں جو ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں وہ یہیں رہ جائیں اگر طلوع صبح تک میرا کوئی پیغام آپ تک نہ پہنچے تو اپنی جانیں بچانے کے لئے واپس چلے جائیں اگر ہم کامیاب ہو جائیں تو آپ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں آپ کا خیر مقدم کیا جائے گا )یہ باتیں اب سے تقریباً ایک صدی قبل موجودہ سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض کے باہر آدھی رات کو ایک 21سالہ نوجوان اپنے چند ساتھیوں سے جن کی کل تعداد ساٹھ سے زیادہ نہ تھی کہہ رہا تھا اس کے ساتھی جو کہ بہادری میں اپنی مثال آپ تھے اس وقت جان کی بازی لگانے کے لئے ہروقت آمادہ تھے اُن کا اپنے گھروں سے اِس طرح نکلنا اور اِس قدر دور آنا دراصل اس امر کی علامت تھی مگر جو کچھ ان کے کانوں نے سنا تھا وہ ان کے لئے ناقابلِ یقین تھا ۔ 
اس سے قبل کہیں بھی ایس نہیں تھا کہ اس طرح چند افراد نے مل کر ایک شہر پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی ہو مگر ایسا ہی تھا اور اس نوجوان نے ان ساٹھ افراد میں سے بھی چندافراد کو منتخب کیا جن کی کل تعداد صرف دس تھی اور یہ دس افراد اپنے اس نوجوان قائد کے ہمراہ اپنے ساتھیوں سے رخصت ہوتے ہوئے ہوئے اپنی اس منزل کی جانب گامزن ہو چلے جس کے اختتام کا انہیں کچھ معلوم نہ تھا بہت سے ساتھیوں نے ان کو اس طرح رخصت کیا کہ شائد ان کو دوبارہ سے نہیں دیکھا جاسکتا ہے مگر اس کے باوجود وہ پر امید تھے ان کو اپنے مالکِ حقیقی پر یقین تھا اس چھوٹے سے قافلے کی روانگی کے بعد وہ بنائے گئے منصوبے کے مطابق اپنے مقام پر تیار ہو کر بیٹھ گئے صبح سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی ان کو شہر کے اندر سے تکبیر کی آوازیں سنائیں دیں اس پر وہ بھی نعرے مارتے ہوئے شہر کی جانب بڑھے فصیلوں میں موجود دروازے کھول دےئے گئے تھے وہ اند داخل ہوتے چلے گئے دشمن پہلے ہی ہتھیار ڈال چکا تھا اس طرح تمام شہر اس چھوٹی سی فوج کے قبضے میں آگیا اور یوں اس انقلاب کی ابتدا ہوئی جس نے آگے چل کر تمام عرب کو اپنے سائے میں لے لیا۔
یہ واقعہ سعودی عرب کے موجودہ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے والد سلطان عبدالعزیزبن سعود کا ہے جنہوں نے 1901 ؁ کے آخر میں موجودہ سعودی عرب کی داغ بیل ڈالی تھی اس سے پہلے اُن کے والد عبدالرحمان ابن سعود اور ان کا خاندان 1890 میں اپنے پرانے حریف خاندان رشید کے مقابلے میں شکست کھا کر پہلے بحرین کے شیخ عیسیٰ بن علی کے پاس پناہ لی اس کے بعد کویت میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکا تھا اس وقت جلاوطن عبدالرحمان ابن سعود نے کویت کے شیخ مبارک الصباح کی امداد سے اپنے آبائی شہر ریاض کو حاصل کرنے کی کئی کوششیں کیں مگر اس میں ناکام رہے اس کے بعد کویت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھُ اس وقت کے انتظار میں بیٹھ گئے جب حالات ساز گار ہوں اور وہ پھر دوبارہ سے اپنے آبائی شہر ریاض جاسکیں۔
مگر اس وقت سعودی عرب کی جو کیفیت تھی اس کے مطابق عوام کی رائے کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں نظر آرہا تھا کہ خاندان سعود واپس آ سکے گا اِس لئے اب خاندان سعود کے اکثر افراد ایک طرح سے مایوس ہو چکے تھے مگر پھر21 سالہ نوجوان عبدالعزیز ابن سعود نے اچانک ایک نئی منصوبہ بندی کے تحت سعودی خاندان کے مرکز کو اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے حاصل کرلیا اس وقت یہ اطلاع ہی ایسی تھی کہ جس نے بھی سنا اس پر یقین نہیں کیا مگر کر سے اس وقت کہی جب انہوں نے اچانک اپنے ساتھیوں کو خطاب کرتے ہوئے اپنے ریاض آمد کی وجہ اور اپنے آئندہ کی پلاننگ اور مقاصدبتائے یہ مقاصد اس قدر حیرت انگیز اور ناقابل یقین تھے کہ اس وقت کنگ عبدالعزیز کے موجود تمام ساتھی جن کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی تھی ایک دم سناٹے کا شکار ہوگئے وہ ریاض جیسے بڑے شہر پر اس طرح حملے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور پھر حملے کے بعد ریاض شہر پر قبضے کے بارے میں توسوچا ہی نہ تھا مگر نوجوان عبدالعزیز نے جو کچھ بھی کردکھایا وہ سب کچھ عرب کے ریگستانوں اور نخلستانوں میں بسنے والے عربوں ور بدوؤں کا دل منواہ لینے کے لئے کافی تھا اب ان بدووں کے چوپالوں میں جس شخصیت کا سب سے زیادہ چرچا ہوتا وہ ریاض کا نوجوان حکمران عبدالعزیز ابن سعود تھا وہ ان کا ایسا ہیرو بنتا جارہا تھا جس کے بارے میں وہ ہر وقت کوئی نئی اطلاع سننے کے لئے تیار رہتے تھے ریاض پر قبضہ کرنے کے بعد شہزادہ عبدالعزیز کے سامنے ریاض شہر کا دفاع تھا کیوں کہ اگرچے کہ انہوں نے ریاض شہر پر قبضہ تو کر لیا تھا مگر ریاض شہر کا دفاع اب ریاض شہر کے فتح کرنے سے زیادہ اہم معاملہ تھا ریاض پر قابض سابق حکمرانوں نے اگر چے کے ریاض پر اپنے قبضہ کئی عشرے تک رکھا تھا مگر اس کے دفاع کو ہر طرح سے کمزور کرنے کی کوشش کی تھی ریاض شہر کی فصیل کو کئی جگہ سے مسمارکردیا تھا اس مقصد کے لئے شہزادے
نے ریاض شہر کے ارد گرد مقیم سعودی خاندان کے پرانے وفادارقبائل کو ریاض شہر میں جمع کرنا شروع کیا اس کے ساتھ ہی ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاض شہر کی شکستہ حال فصیل کی مرمت کرنا شروع کی دشمن نے ریاض شہر کی فصیل کو جان بوجھ کر تباہ کیا تھا کہ اگر کہیں دوبارہ سے آل سعود کا قبضہ ہو گیا تو پھر اس فصیل کو وفاع شہر کے دفاع کے لئے استعمال نہ کر سکیں مگر اب شہر کا دفاع ضروری تھا اور دفاع کے لئے ضروری تھا کہ ریاض شہر کی فصیل کو دوبارہ سے تعمیر کیا جائے اس مقصد کے لئے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہاں ان چند بہادروں کے پاس سوائے اپنی جانوں کے اور کچھ بوسیدہ ہتھیاروں کے کچھ بھی نہ تھا اس صورت میں شہزادہ عبدالعزیز نے ریاض شہر کے شہریوں کو جمع کرکے ا نہیں ریاض شہر کے دفاع کے لئے فصیل کی تعمیر کے منصوبے کے بارے میںآگاہ کیا یہ بھی ان حا لات میں ایک طرح سے ناممکن سا تھا مگر باعزم عبدالعزیز طے کرچکے تھے کہ شہر کی فصیل کو مضبوط کرنا ہے اور دفاع کے قابل بنانا ہے ۔
اس لئے نوجوان عبدالعزیز نے خود ہی فصیل کی تعمیر کے لئے دور دراز سے گارا مٹی کو لانا شروع کیا اس کام میں شہزادہ گھنٹوں خود مزدوروں کی مانند کام میں جٹے رہتے ریاض شہر کے عوام نے اس سے پہلے کبھی بھی اس طرح کا منظر نہ تو دیکھا تھا اور نہ ہی سنا تھاوہ اپنے محبوب قائد کے ساتھ دل و جان سے لگ گئے شہزادے عبدالعزیز نے ریاض شہر کے دفاع کی ہر ممکن کوشش کی انہوں نے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا دشمن بہت طاقتور اور عیار ہے اور اس کو شکست دینے کے لئے ہر طرح کی کوشش کرنا ہوگی ریاض شہر کی فصیل کی تعمیر کے ساتھ ہی شہزادے نے اپنے قبیلے کو جو کویت میں مقیم تھا اور جلا وطنی کی زندگی بسر کررہا تھا ریاض واپس آنے کی دعوت دی کویت میں مقیم سعودی خاندان میں ریاض کی فتح کو ملے جلے جذ بات کے ساتھ سنا گیا ا ن جذبات میں حیرت اور اچنبا بھی شامل تھا سعودی خاندان نے اس خبر کو اگرچے کے حیرت کے ساتھ سنا مگر پھر سب ہی کویت سے سعودی عرب آگئے سعادت مند اور بہادر بیٹے عبدالعزیز نے اپنے والد کا عزت اور ا حترام کے ساتھ استقبال کیا یہ ایک پرمسرت موقع تھا جب سعودی خاندان طویل مدت کے بعد تمام عرب اور عرب کے باہر ہجرت کی تلخ زندگی گزارنے کے بعد واپس اپنے وطن آیا
سعادت مند بیٹے نے اپنے بوڑھے باپ کی خدمت میں ریاض کی حکمرانی کا تخت پیش کیا کہ وہ اس تخت کے حق دار ہیں مگر بوڑھے اور تجربے کار باپ سلطان عبدالرحمان ابن سعود کی آنکھیں پہچان چکیں تھیں کہ اب سعودی خاندان اور مستقبل کی اس جدید مملکت کے دفاع اور ترقی کی تعمیرکے لئے ضروری ہے کہ عبدالعزیز ہی کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی جائیں اس لئے ایک پر وقار اور سادہ سی تقریب میں ان کے والد نے شہزادے کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کردیا اور وہ تلوار جو کہ قبیلے کے سربراہ کے پاس رہتی تھی اور کئی پشتوں سے سعودی خاندان میں اقتدار کی علامت کے طور پر چلی آتی تھی شہزادے کے حوالے کردی بعد کے واقعات نے یہ بات ثابت کی کہ یہ فیصلہ درست تھا اس بر سر عام تقریب اور سعودی خاندان کی واپسی نے ریاض پر قبضے کے ساتھ مل کر ارد گرد کے سرداروں کو اس بات یقین دلادیا کہ تقدیر کا پانسا الرشید کے خلاف اور آل سعود کے حق میں پلٹ چکا ہے اس لئے اب جوق در جوق ہزاروں کی تعداد میں قبائلی سردار اپنی افواج کے ساتھ اپنی وفا داریاں پیش کرنے کے لئے ریاض پہنچ گئے ان کی وجہ سے اب شہزادے کے لشکر میں اضافہ ہونے لگا اور شہزادے نے ریاض کے دفاع کی تیاریاں کرنا شروع کردیں ایک جانب تو ریاض کے دفاع کی تیاریاں ہو رہیں تھیں۔
دوسری جانب اس خاندان کاازلی دشمن عبدالعزیز بن عبدالرحمان کاہم نام مگر ازلی دشمن عبدالعزیز ابن متعب بن الرشید جس نے عبدالعزیز بن عبدالرحمان کے خاندان سعود سے ریاض اور نجد کی حکومت چھینی تھی وہ اِس شکست پر اپنے آبائی مرکز حائل میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اور اپنی اس شکست کابدلہ لینے کے لئے تیاریاں کررہا تھا خاندان رشید کا مرکزشمال میں حائل شہر تھا یہ شہر حائل انتہائی محفوظ اور الرشید خاندان کا مضبوط گڑھ تھا یہاں پربیٹھ کر رشید خاندان کا سربراہ ہر طرح کی جنگ لڑ سکتا تھااگر چے کے سلطان عبدالعزیز نے ریاض کے محاز پر خاندان عبدالعزیز کو شکست دیدی تھی مگر اب بھی نجد اور سعودی عرب کے دیگر علاقوں پر اور جزیرۃ العرب سے باہر ترکی اوریوروپی ممالک کی حکومتیں خاندان رشید کی حکمرانی کو تسلیم کرتیں تھیں۔
جبکہ ریاض میں ہونے والی اس تبدیلی کو انہوں نے الرشید خاندان کے علاقے کی اندرونی جنگ تصور کیا تھا اس لئے ان کی جانب سے اب تک اخلاقی اور عملی حمایت خاندان الرشید اور اس کے سربارہ کو حاصل تھی جبکہ اب تک ریاض کے ارد گرداور نجد میں بسنے والے قبائل نے اگر چے کے ریاض کے اس انقلاب کو زمینی حقیقت تصور کرتے ہوئے تسلیم کرلیا تھا مگر ان کے لئے یہ بہت مشکل تھا کہ وہ اس حقیقت کو بھی سمجھیں اور تسلیم کریں کہ خاندان رشید کے خاتمے کی ابتدا اب ہو چکی ہے ۔وہ اب اگر چہ کہ بدلتی ہو ا کو محسوس کررہے تھے مگر ہوا کے رخ کو اب تک مکمل طور پر پہچان نہیں سکے تھے اس حقیقت کو تسلیم کرانے کے لئے ابھی ریاض کے اس نوجوان حکمران کو بہت طویل اور صبر آزما لڑائی لڑنا تھی جس کے لئے وہ عملا تیار اور آمادہ تھے ۔
جاری ہے۔
بقیہ آئندہ
سعودی عرب کے ان دنوں حالات
اُنیسویں صدی کی ابتدا میں موجوہ سعودی عرب کئی ریاستوں میں تقسیم تھا ان میں سے ایک حجاز کی ریاست تھی جس پر ہاشمی خاندان کی حکومت تھی جس کہ سربراہ شریف مکہ تھے دوسر ی بڑی ریاست نجد تھی نجد کی ریاست پر رشیدی خاندان نے ترکوں اور حجاز کے ہاشمی خاندان کی مددسے سعودی خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ کرکے اپنی حکمرانی قائم کردی تھی اس کے علاوہ بے شمار چھوٹے بڑے قبائل تھے جو کے اپنے سرداروں کے ماتحت تھے اور دنیا کی کسی بھی حکومت سے آزاد تھے ان کی حدود میں ان کا اپنا قانون اور نظام نافذ تھا نجد کے مرکز اور سعودی عرب کے موجودہ دارلحکو مت ریاض پر رشیدی خاندان کے محمد ابن رشید نے1890میں اپنے مرکز حائل سے فوجوں کو اکھٹا کرکے ریاض پر حملہ کرکے شاہ عبدالعزیز ابن عبدالرحمان ابن سعود کے والد عبدالرحمان ابن سعود سے چھین لیا تھا اس کے بعد سعودی خاندان کو نجد سے جلا وطنی اختیار کرنا پڑی اس جلا وطنی کے نتیجے میں سعودی خاندان پہلے خلیج فارس میں واقع جزیرے بحرین پر پناہ لینے پر مجبور ہو گیا اس وقت بحرین کے حاکم شیخ عیسیٰ بن خلیفہ حکمران تھے جنہوں نے سعودی خاندان کا بہت پرتپاک استقبال کیا مگر سعودی خاندان اپنی کھوئی ہوئی حکومت کی واپسی کے لئے دوبارہ سعودی عرب میں ربع الخالی کے مقام پر پہنچا یہاں پر سعودی خاندا ن نے کچھ عرصہ قیام بھی کیا مگرپھر دنیا کے اس ظالم ترین صحرا میں کچھ مدت گزار کر یہ خاندان کویت کے حکمران کے پاس چلا گیا جہاں سے کویتی حکمرانوں کی مدد سے اگر چے کہ اپنے کھوئے ہوئے مرکز کو حاصل کرنے کی کئی بار کوشش کی مگر اس میں ناکام رہا پھر نوجوان عبدالعزیز ابن عبدالرحمان ابن سعود نے ایک کامیاب حملے کے نتیجے میں ریاض پر قبضہ کرکے نئی سعودی حکومت کی داغ بیل دالی